مدت سے چھپایا ہوا غم کھلنے لگا ہے

مدت سے چھپایا ہوا غم کھلنے لگا ہے
آوارہ مزاجی کا بھرم کھلنے لگا ہے
سانسوں کی حرارت تو بڑھے گی کہ بدن پر
ساون کی ہواؤں کا ستم کھلنے لگا ہے
کھولے ہیں تری یاد نے لپٹے ہوئے لمحے
آنکھوں میں ترے عکس کا نم کھلنے لگا ہے
شانوں پہ ڈھلک آیا ہے اک چاند کا ٹکڑا
چہرے پہ تری زلف کا خم کھلنے لگا ہے
در آئی ہے یک گو نہ طمانّیتِ احساس
دروازہُ بارانِ کرم کھلنے لگا ہے
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *