مری زندگی
مری زندگی مجھے کیسے شہر میں لائی ہو
ابھی آنکھ کھولی نہیں خوشی نے نصیب میں
ابھی دھوپ، دل کی ملائمت سے ہٹی نہیں
ابھی کتنے خواب ہیں بھولپن کی پناہ میں
ابھی آرزؤں کی راہ میں ہیں وہ قافلے
جو کبھی تو جاں میں شکست بن کے رکے رہے
تو کبھی دیارِ گماں سے آگے نہ بڑھ سکے
مری زندگی مجھے کیسے شہر سے لائی ہو
یہ گھروں سے جھانکتی رائیگانیاں کون ہیں
تری سنسناہٹیں کون ہیں مری بے زبانیاں کون ہیں
مرے اردگرد یہ رونے والی خموشیاں مری کون ہیں
مرے سوگوار مجھی سے آنکھیں چرا رہے ہیں تو کیا سبب
یہ تسلیاں
یہ گلے لگانا مجھے مرے ہی سکوت کا
یہ بسے ہوئے یہاں ہر مکان میں بین کیوں
یہ کھڑی ہوئی یہاں ہر دریچے سے لگ کے درد کی رین کیوں
مجھے کیسے شہر سے لائی ہو
ابھی کچا پن ہی تو ہے کہ صبر کے پیڑ پر
کوئی شاخ باقی نہیں بچی
مرا اپنا کون ہے کس محلے کے گھر میں ہے
کوئی گھر دکھوں سے بچا ہوا تو نہیں یہاں
بھلا ہو بھی کیسے
کہ شہرِ درد تو شہرِ درد ہے ہر جگہ
یہاں ہر سڑک بڑی زرد زرد ہے ہر جگہ
یہاں حوصلہ بھی تو گرد گرد ہے ہر جگہ
مری زندگی
مجھے یہ بتاؤ یہ کیسی شام ہے کیسے پہر میں لائی ہو
یہ جو نیل رنگ اُمڈ سا آیا ہے روح میں
یہ نصیب دشمناں کیسا زہر ہے کیسی لہر میں لائی ہو
مری زندگی مری زندگی
مجھے کس کے قہر میں لائی ہو
فرحت عباس شاہ