مرے شب زدہ

مرے شب زدہ
مری آنکھیں عمر کے رتجگوں نے اجاڑ دی ہیں ابھی ابھی
ہے ابھی ابھی کوئی خواب آ کے جلا گیا
کبھی نیم سوتا ہوں بھول بھال کے رنجشیں
کبھی نیم جاگتے بیت جاتی ہے جاں کنی
جہاں میں نہ تھا
مجھے ہر دفعہ کئی بستروں پہ گمان لیٹا ہوا ملا
جہاں میں تھا
نیند کے آئینوں پہ خراش تھی
وہ جو اونگھتے تھے خیال میں ترے خال و خد
مری رات رات چبھو گئے
مرے اختیار میں تھے نہیں
کبھی جاگ اٹھے کبھی سو گئے
مجھے شام کہتی ہے لوٹ جا ابھی وقت ہے
ابھی وقت ہے ابھی کچھ ہی نہیں ہے درد کے ہاتھ سے
مری صبح کہتی ہے مجھ سے
اے مرے شب زدہ!
ذرا اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھو تو آنکھ کھولوں فضاؤں میں
مرے شب زدہ!
ذرا اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھو تو کچھ کہوں
میں یہ سن کے چہرہ ٹٹولتا ہوں
تلاش کرتا ہوں دیر تک۔۔۔۔ بڑی دیر تک
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *