مستقل ورنہ سفر کرتے ہیں

مستقل ورنہ سفر کرتے ہیں
دل نظر آئے تو گھر کرتے ہیں
خوف کے مارے پرندوں کی طرح
جاگ کر رات بسر کرتے ہیں
کیا کہوں نین کسی کے مجھ پر
کس قدر جلد اثر کرتے ہیں
سچ کا پرچار کھلے عام سدا
ہم بلا خوف و خطر کرتے ہیں
اپنا سب حسن نظر عجز کے ساتھ
آپ کے پیش نظر کرتے ہیں
تلملا اٹھتا ہے پھر دریا بھی
ہم جب آنسو کو گہر کرتے ہیں
اتنی سی حبس سے گھبرانا کیا
آؤ دیوار میں در کرتے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اک بار کہو تم میرے ہو)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *