ہجر کا پھل بھی پک گیا تو کیا
منزلوں کو جھٹک گیا تو کیا
دل ہی تھا نا، بھٹک گیا تو کیا
یہ زمانہ بھی مجھ کو کھٹکا تھا
اور اب میں کھٹک گیا تو کیا
میرے باطن میں روشنی ہے بہت
تیرا ظاہر چمک گیا تو کیا
جال کے دائرے کے اندر ہے
دور ہی سے ٹھٹک گیا تو کیا
تم کبھی بھی نہیں تھے تازہ دم
میں ذرا سا جو تھک گیا تو کیا
بات تو جب تھی جا کے بس جاتا
شہر ویران تک گیا تو کیا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – مرے ویران کمرے میں)