میرا وطن ابھی زندہ ہے

میرا وطن ابھی زندہ ہے
اب پھر نیا سال آن پہنچا ہے
حسب معمول
بہت سارے نوکیلے دانتوں والے
میرے پاس آئیں گے اور اپنا مطالبہ دہرائیں گے
پہلے مشورہ دیں گے
پھر ڈرائیں گے اور دھمکیاں دیں گے
پھر درخواست کریں گے
پھر گڑگڑانے لگیں گے
حسب معمول
ایک کہے گا میں بادشاہ ہوں
دوسرا کہے گا میں وزیر با تدبیر ہوں
تیسرا کہے گا میں سپہ سالار ہوں
پھر درباری آئیں گے
اور سب مل کر کہیں گے جناب آپ تو شاعر ہیں
آپ کو تو اپنے وطن کی موت پر بہت دکھ ہوا ہو گا
آئیے نا
آپ ہی جنازہ پڑھا دیجئے
دیکھیے آپ کے پیچھے
کتنے جید علماء
کتنے فاضل استاد
کتنے وفادار سیاسی رہنما
کتنے افسران کرام
کتنے ادباء
کتنے جنگجو
اور کتنے نامور تاجر
اور کتنے معززین
اپنے پیارے وطن کا جنازہ پڑھنے کے لئے بے چین ہیں
آئیے آگے بڑھیے
نیک کاموں میں دیر کیسی
یہ سب مل کے مجھے کہتے ہیں
اپنی اپنی بولی
اور اپنے اپنے انداز میں مجھے مجبور کرتے ہیں
اور میرے اندر
میری اور میرے وطن کی زندگی چیخ اٹھتی ہے
ہزاروں کرلاتے ہوئے لفظ
موسلا دھار برستے ہوئے آنسوؤں کی طرح
میرے صفحات پر گرنے لگتے ہیں
ان گنت پکاریں مل کے
میرے ہر طرف بین کرنے لگتی ہیں
اور مجھے موت کے سوداگروں کے اس ہجوم میں
سمجھ نہیں آتی
کسے بتاؤں
کسے سمجھاؤں
زندہ چیزوں کا جنازہ جائز نہیں ہوتا
فرحت عباس شاہ
(کتاب – جم گیا صبر مری آنکھوں میں)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *