میں اک قطرہ کیا میری اوقات سمندر میں

میں اک قطرہ کیا میری اوقات سمندر میں
گم ہو جایا کرتی ہے برسات سمندر میں
جنم جنم کا جیون بھی ہے اور فنا بھی ہے
اپنے اپنے ہوتے ہیں حالات سمندر میں
آوازوں کی بھیڑ میں بھی میں کچھ بولا تو تھا
یوں لگتا ہے ڈوب گئی ہے بات سمندر میں
اک پُرہول خموشی دل میں مار رہی ہے پر
کیا بتلائیں کیسے گزری رات سمندر میں
آنکھوں پر لہروں کی پٹی کانوں پر اک شور
کوئی نہ جانے کب ہے کس کی مات سمندر میں
ساحل پہ بیٹھے لوگوں کو فرحت کیا معلوم
کون لگا کر بیٹھا ہو گا گھات سمندر میں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *