مسلسل بھاگ رہا ہوں
ہزار مونہا خوف میری ٹانگیں اور میرے پاؤں بن گیا ہے
اور مجھے کہیں رکنے نہیں دے رہا
کسی کو کیا پتہ خدا کہیں آگے ہے
یا پھر کہیں پیچھے رہ گیا ہے
اب میں ایک مسلسل بھاگنے والا سہما ہوا شخص کیا کروں
خد ا مجھے نہ تو کوئی بہت بڑی کر سی پر بیٹھا ہوا
کوئی بہت بڑا انسان لگتا ہے
نہ بہت سارے ہاتھوں والا کوئی بُت
مجھے وہ صرف ایک نظام لگتا ہے
جو ہر جگہ موجود ہے
نیوٹرون میں بھی
اور کہکشاؤں میں بھی
پتھروں میں بھی اور پھولوں میں بھی
ہوا میں بھی
اور خلا میں بھی
خوشی میں بھی
اور دکھوں میں بھی
یہ میری ذاتی بات ہے
وہ خوشی سے کہیں زیادہ غموں میں موجود ہے
اس لئے تو میں کہتا ہوں کہ میں نے اپنے رب کو
اپنے غموں سے پہچانا
اور ساتھ ہی رو پڑتا ہوں
اور آنسوؤں پر بندھے ہوئے تمام بند ٹوٹ جاتے ہیں
میری رفتار مزید تیز ہو جاتی ہے
میں اپنے آنسوؤں کے مقابلے پر اتر آتا ہوں
ہمیشہ کی طرح
ہار جانے کے لئے
شاید میں نظام کے چکر کا حصہ ہوں
وہاں یہی کچھ ہے
میں نے اپنی تقدیر کو بھی اسی طرح پہچانا ہے
فرحت عباس شاہ