پھر میں نے خود کو دیر تلک خود لکھا پاگل آوارہ
وہ ٹھہرا ٹھہرا سا پانی وہ سُلجھا سُلجھا سا موسم
میں اُلجھا اُلجھا سا شاعر میں ٹھہرا پاگل آوارہ
کیا موسم تھے کیا شامیں تھیں کیا راہیں تھیں کیا راہی تھے
اِک لڑکی کچھ دیوانی سی اِک لڑکا پاگل آوارہ
چاہے تو یہ دریا رُک جائیں چاہے تو یہ تارے جھُک جائیں
یہ دُکھ کی دنیا کا باسی دیوانہ پاگل آوارہ
صدیوں سے سنگ زنی کا شیوہ اپنی آپ گواہی ہے
خود دنیا آپ جنونی تھی یا میں تھا پاگل آوارہ
فرحت عباس شاہ
(کتاب – آنکھوں کے پار چاند)