تم دو گے مجھے کیا مری پہچان کے بدلے
یہ ہنستے ہوئے لوگوں کا بازار ہے جاناں
کچھ بھی نہ ملے گا دل ویران کے بدلے
دنیا بڑی شاطر ہے مرے شاعرِ معصوم
موجود بھی لے جائے گی امکان کے بدلے
اک روضہِ حسرت ہے مری روح کے اندر
کیا چیز ملی ہے مجھے پیمان کے بدلے
گرتا چلا آتا ہے فلک سے مری جانب
اک وقت فنا شہر خیابان کے بدلے
فطرت کے بھی کچھ اپنے تقاضے ہیں مری جان
بحران ملا کرتا ہے بحران کے بدلے
وہ شخص مری جان بھی لے لے گا خوشی سے
اور کچھ بھی نہیں دے گا مری جان کے بدلے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اور تم آؤ)