میں ہوں بادشاہ بنا ہوا
مرا تخت ہے
مرے اونچے اونچے محل ہیں، قُرب و جوار میں
مرے سامنے کئی سر جھکے ہیں قطار میں
مرا بخت ہے
مرے ہاتھ میں ہے مرے دوام کی زندگی
انہیں دے رہا ہوں سبھی بنا کسی مول کے
مری جوتیوں میں جو رزق تھا
میں نے جوتیوں سے نکال کے
اسے بانٹ ڈالا ہے مفت میں
مرے سَر پہ سوچ کا تاج ہے
مرے قلب و ذہن پہ میرا اپنا ہی راج ہے
مری آنکھ میں ابھی لاج ہے
مجھے عاقبت بھی سنوارنی ہے جہان بھی
مجھے ہیں بدلنی روایتیں
مجھے جلدی جلدی سنوارنا ہے سماج بھی
مرے پاس آج ہی آج ہے
ہے کسے خبر کوئی کل بھی آتا ہے یا نہیں
یہی پل ہمارا خِراج ہے
یہی پل میں سب کو پناہ ہے
میں ہوں بادشاہ بنا ہوا
مرا تخت ہے
مرا بخت ہے
فرحت عباس شاہ