جانے کس کس کے گھر رہی ہے رات
ایک تو میں تھا اور مرے ہمراہ
عمر بھر دربدر رہی ہے رات
خواب میں ہی وہ دیکھ لے شاید
میری کیسے گزر رہی ہے رات
پَو پھٹی ہے کہیں فضاؤں میں
میرے بستر پہ مر رہی ہے رات
پھیلتا جا رہا ہے ویرانہ
لمحہ لمحہ اتر رہی ہے رات
دیکھ کر آئینہ سمندر کا
دھیرے دھیرے سنور رہی ہے رات
ہجر کے دھوپ موسموں میں بھی
اک تناور شجر رہی ہے رات
شہر کی روشنی سے دور کہیں
جنگلوں میں بکھر رہی ہے رات
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)