بے سر و سامان و در بے خدو خال
میں کوئی بچہ
مری آنکھوں میں ریت
ماں مری مجھ سے ہزاروں خواب دور
تھپکیاں دیتی ہوا گم سم عجیب
لوریاں دینے کو اتری ہے صلیب
رفتہ رفتہ ہو رہی ہیں سخت دامن پہ درندہ انگلیاں
اور خراشیں چھیدتی جاتی ہیں دل
کیسے چلاؤں بیابانوں کے بیچ
آ گیا ہوں برف ڈھلوانوں کے بیچ
جن کو آنا تھا مری پہلی صدا پر دوڑ کر
ہو گئے ہیں کچھ تو اپنے ہی گرے ملبوں تلے رزقِ فنا
اور کچھ خود اپنے ہی اندر کے ڈر سے ٹوٹ کر
اونے پونے دام ماتھے بیچ کر بے در ہوئے
کس کی جانب ہاتھ بڑھاؤں کسے خواہش کروں
کیا انھیں جو چاہتوں کی سر زمینوں پر مری
بادلوں کے موسموں سے قبل پتھر بو گئے
کیا انھیں جن کو جہاں جو کچھ ملا سب
اپنی بے چہرہ ہوس میں چن گئے
یا انھیں
جو اک ذرا موقع ملا تو دوڑ کر
نیند میں کھوئے ہوؤں کے گرد
جالے بُن گئے
آندھیوں میں، میں وہ تنہا پیڑ ہوں جس کی جڑیں
اپنے ہی پھولوں پھلوں کی سازشوں سے جل گئیں
اور مکاں بھی ہوں تو ایسا ہوں
کہ جس کے ہر مکیں کے ہاتھ بنیادوں کی گردن پر جمے ہیں
اور آنکھوں میں اتر آیا ہے خوں
سال ہوں جس کا کوئی پھاگن نہ چیت
مملکت ایسی کہ جس کے شہر شعلوں میں
تو دریاؤں میں کھیت
ماں مری مجھ سے ہزاروں خواب دور
ماں مری مجھ سے ہزاروں خواب دور
میں کوئی بچہ مری آنکھوں میں ریت
فرحت عباس شاہ