نا سایا پیڑوں کے نیچے نا پتوں پہ دھوپ

نا سایا پیڑوں کے نیچے نا پتوں پہ دھوپ
تاریکی میں نقش گنوائے اجیالوں میں روپ
گم سم رہ کے بات گنوائی، لب کھولے تو ذات
آپ ہی اپنی شان گھٹائی خود اپنی اوقات
دھرتی بیچ کے صحن خریدا اور من بیج کے تن
نگر نگر کا مول چکایا گھر لے آئے بن
دم بکھرا کے راہ بنائی دل بکھرا کے چاہ
چاہ بھی ایسی گہرائی کی جس کی سانس نہ آہ
کبھی جلائیں پرنم آنکھیں کبھی جلایا غم
راکھ ہوا سب دم خم اپنا پھر بھی پڑ گیا کم
ساری جگ ورتی بے کار ہے ساری تن ورتی بیکار
اور ہی کچھ درکار پیا کو اور ہی کچھ درکار
نا سایا پیڑوں کے نیچے نا پتوں پہ دھوپ
جانے کیا ہے اصل یہاں پر جانے کیا بہروپ
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *