نامعلوم

نامعلوم
ہم دیوانے
بھول بھلیّاں کب تک کھیلیں
آخر کب تک انجانے رستوں میں بھٹکیں
جانے کس کی خاطر گھر سے نکل پڑے تھے
جتنا ان دیکھا محسوس کیا ہے ہم نے
سب کب عادی ہوتے ہیں ان باتوں کے
بھول بھلیّاں چھُوکر ہاتھ جلا بیٹھے
بھول بھلیّاں چل چل پیر گنوا بیٹھے
بھول بھلیّاں جھیل کے
اپنے سارے نام نشان مٹا بیٹھے
ہم دیوانے
بھول بھلیّاں کب تک کھیلیں
کب تک جھیلیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – من پنچھی بے چین)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *