وصال گُم
یہیں کہیں وصال گُم
وہی پکار وہم کی
وہی بکا علوم کی
وہی وفا نجوم سے ہجوم کی
کہ جس میں ماہ و سال گُم
یہیں کہیں ہوئے ہیں ماہ و سال گُم
عجب سرائے وحشتِ گمان ہے
جہان تو شکار کی نظر میں آ گئی ہوئی مچان ہے
کسے خبر کہ کس کا وار سخت ہو
کسے خبر
کہ کس کے ہاتھ سے وجود کس کا لخت لخت ہو
عجب بلائے محشرِ دھیان ہے
اسی دھیان میں ہوا ملال گُم
ملال بھی خوشی میں ہو تو باعثِ ملال ہے
اور اس ہوائے اضطراب میں صدائے احتساب کے تلے
سوال ہے
کہ میں کہاں ہوں اور کہاں ہوا مرا کمال گُم
مرے یہاں
کہیں پہ ایک رات ہے سیاہ رات
جس میں کوئی بات ہے
عجیب بات ہے کہ جس میں ہو گئے خیال گُم
یہیں کہیں خیال گُم
یہیں کہیں وصال گُم
یہیں کہیں ملال گُم
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)