نیندوں نے ستایا تو سفر چھوڑ گیا ہے

نیندوں نے ستایا تو سفر چھوڑ گیا ہے
اک خواب کی دہلیز پہ سر چھوڑ گیا ہے
ٹھہرا ہوا اک دھوپ نگر چھوڑ گیا ہے
بے چین تھا اور اس لئے گھر چھوڑ گیا ہے
کیا جانئے کیوں راہ میں ہر اگلا مسافر
ہر گام پہ حالات کا ڈر چھوڑ گیا ہے
اچھا ہے اگر نکلا ہے سینے سے ہمارے
کوئی تو اداسی کا نگر چھوڑ گیا ہے
فرحت کی طرح دیکھیں گے ہر چیز کو ہم بھی
اچھا ہے کہ اندازِ نظر چھوڑ گیا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *