اور اک حشر اٹھانا ہے ابھی
یہ وہی دل ہے تمہارے والا
یہ وہی شہر پرانا ہے ابھی
یہ جو موجود زمانہ ہے ابھی
تیری یادوں کا نشانہ ہے ابھی
اک ذرا ٹھہرو مرے ہم نفسو
بس ابھی دیپ بجھانا ہے ابھی
میرے دامن میں ترے درد کے بعد
ایک سے ایک خزانہ ہے ابھی
اس ترے عشق میں مر جانے کا
اک چراغ اور جلانا ہے ابھی
مجھ کو معلوم ہے میرے مولا
میں نے اس دنیا سے جانا ہے ابھی
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – دوم)