تمہارے ہجر کے بستر پہ سو گئے ہم بھی
گلے میں ڈال کے تعویذ آرزوؤں کے
سپردِ وحشتِ ایام ہو گئے ہم بھی
نہ ہم سے دیکھے گئے زرد چاند کے آنسو
ردائے شب کا کنارہ بھگو گئے ہم بھی
ڈبو رہے تھے کئی لوگ کشتیاں اپنی
وہیں پہ ہم بھی کھڑے تھے ڈبو گئے ہم بھی
کچھ اپنا گریہ ہی بس میں نہیں تھا اور اُس پر
مقام ہی تھا کچھ ایسا کہ رو گئے ہم بھی
کسی کی آنکھ بھرائی ہماری یادوں سے
کسی کی آنکھ میں جھونکا چبھو گئے ہم بھی
فرحت عباس شاہ