کسے جا کر سنائیں شہر میں اور کون سنتا ہے
کسے جا کر بتائیں
ہم جو اپنے سرخ ہونٹوں کو
چکتی مسکراہٹ، ادھ کھلی کلیاں، نگاہوں کو دھنک کے رنگ
خوشبو اور منظر سونپ رکھتے تھے
دلوں میں گرم جذبوں کی چمک چمکائے رکھتے تھے
ہمیشہ قہقہوں اور چاہتوں کے رس میں ڈوبے طنز
پھولوں کی ملائم پتیوں کے لمس میں لپٹا کے
اپنے دوستوں پہ پھینکتے تھے کھلکھلاتے تھے
مگر اب تو بہت عرصہ ہوا
ویرانیوں کی قید میں ہر روز ڈھلتی شام تک
فالج زدہ ہونٹوں کی لاشیں تھام کے
اپنی اپاہج انگلیوں کی برف دانتوں میں دبائے
کھول کے گھر کا دریچہ جھانکتے ہیں
اور رستوں میں بھٹکتے، ٹوٹ کے گرتے، بکھرتے، سائے تکتے ہیں
کسے جا کر بتائیں
اب ہمارے لب، ہمارے گنگناتے لب
غموں میں کپکپاتے ہیں تو وحشت سے بھری آنکھیں
برستے آنسوؤں کی آبشاروں کی تہوں یں ڈوب جاتی ہیں
کسے جا کر بتائیں شہر میں
اور کون سنتا ہے
فرحت عباس شاہ