شہرِ بے تاب کے دروازے سے لگ کر سوئے
آتے جاتے ہوئے سب نے ہمیں دیکھا اور ہم
دُکھ کے مہتاب کے دروازے سے لگ کر سوئے
ہم تو صحراؤں کے موسم میں بھی تیرے باعث
خواہش و خواب کے دروازے سے لگ کر سوئے
مال داروں کو بھلا چین کہاں تھا وہ تو
مال و اسباب کے دروازے سے لگ کر سوئے
ہم بھی معصوم بہت تھے سو بہت مدت تک
یار احباب کے دروازے سے لگ کر سوئے
مستقل روتی ہوئی آنکھوں سے لپٹے ہوئے خواب
جیسے سیلاب کے دروازے سے لگ کر سوئے
بعد میرے ترا غم سوچے گا آخر اک دن
کس کے اعصاب کے دروازے سے لگ کر سوئے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – دوم)