کس بدلتے ہوئے موسم نے ہمیں کھینچ لیا ہے پھر سے
سکھ کی دہلیز سے واپس در ویراں کی طرف
سانس مقروض نہیں تھی لیکن
اب تو لگتا ہے کہ ہے
روح مضروب نہیں تھی لیکن
اب تو لگتا ہے کہ ہے
جسم زخموں سے بہت پاک تھا لیکن کبھی تھا
نا کوئی رت ہی ٹھہرتی ہے نہ موسم کوئی
رونقیں بیچنے والوں کے خیالوں کی طرح
دیر سے اجڑا ہوا وقت ہمیں ڈھونڈتا ہے
کون باعث ہے نجانے اس کا
ہم جنم لینے سے پہلے کوئی غم تھے شاید
اب جو انسان نما پھرتے ہیں کملائے ہوئے
ہم جنم لینے سے پہلے کوئی حیرت تھے جو، اب
ہر طرف پھرتے ہیں گھبرائے ہوئے
سوچتے ہیں کہ اچانک آخر
کس بدلتے ہوئے موسم نے ہمیں کھینچ لیا
فرحت عباس شاہ