ہم ستاروں کی طرح نیند سے بھاگ آئے ہیں
رات کا بخت ہے
آنکھوں میں اتر آئے ہیں جگنو غم کے
کون سوئے گا اداسی کے کسی پگھلے ہوئے موسم میں
ایک اک کرکے تری یادیں
سلگ اٹھتی ہیں نادیدہ سلاخوں کی طرح
ہم کسی حال میں قائل نہیں سوجانے کے
نیند کے ساتھ کسی رنگ کی بیداریاں مشروط ہیں تنہائی میں
بے قراری کی صفیں
مورچے ویرانی کے
میمنے، میسرے دلدوز بیابانی کے
خواب تو ہارے ہوئے لشکر ہیں
اپنے ہی آپ میں محصور
یا
مفرور
یاقیدی لشکر
رات کا بخت ہے
اور تخت ہے بیداری کا
ہم ستاروں کی طرح نیند سے بھاگ آئے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اے عشق ہمیں آزاد کرو)