ہم سفری کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے

ہم سفری کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے
دل کو دکھ کے ساتھ چلانا پڑتا ہے
ہم جیسے آوارہ دل لوگوں کو بھی
کوئی نہ کوئی قول نبھانا پڑتا ہے
کبھی کبھی اک درد بھری سسکاری سے
خاموشی کو زخم لگانا پڑتا ہے
سناٹے محفوظ رکھے ہیں سینے میں
ویرانی کا ہاتھ بٹانا پڑتا ہے
پہلے کرنا پڑتا ہے اک جنگل صاف
اس کے بعد اک شہر بسانا پڑتا ہے
روز ہمیں یادوں کے گھور سمندر میں
رات گئے اک دیپ جلانا پڑتا ہے
پردوں کا اک کھیل سجانا پڑتا ہے
ایک اٹھانا ایک گرانا پڑتا ہے
تنہائی میں رہنا بھی مجبوری ہے
لوگوں میں بھی آنا جانا پڑتا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *