ساون
تم بن کیسے بیتا
ہم نے یاد نہیں رکھا
دل پر جتنے کالے بادل گھر گھر آئے
آنکھوں میں بھی جیسے جیسے بارش برسی
ہاتھ غموں کی سرد ہوا میں
لرز لرز کے جس جس طرح
ہانپتے کانپتے اپنے آپ کو تھامتے آئے
ہم نے یاد نہیں رکھا
تم بن جیون کیسے بیتا
کیسے کیسے آگ بگولہ سورج جیسے
دن اترے تھے سینے کے سونے آنگن میں
کیسی کیسی شامیں دکھ کی گلیوں میں
آیا کرتی تھیں
کیسی کیسی راتوں نے خوابوں کے گم سم صحراؤں پر
خیمے تانے
ہم نے یاد نہیں رکھا
ہم نے شاید کچھ بھی یاد نہیں رکھا ہے
لیکن آخر تم بھی تو کچھ بولو ساجن
تم نے کیا کیا یاد رکھا ہے
یا پھر کیا کیا بھول گئے ہو۔
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اور تم آؤ)