ہمارے دکھ ہماری آنکھ ہیں
جس سے ہمیشہ ہم
کسی بھی کہکشاں سے اپنے مطلب کے ستارے ڈھونڈھ لیتے ہیں
ہمارے دکھ ہمارے ہاتھ ہیں
جن سے ہمیشہ ہم سہارے ڈھونڈ لیتے ہیں
ذرا چپ ہوں
تو یہ آواز دیتے ہیں
ادھورے پن کی ویرانی میں جتنا ساتھ دیتے ہیں
کوئی بھی دے نہیں سکتا
ہمیشہ سانس کی لرزش میں گھل کے،
اور سینے کی گھٹن میں پھیل کے
اک شہر سا آباد کرتے ہیں
کبھی بےحوصلہ ہوں ہم اگر
تو ساتھ مل کےوقت سے فریاد کرتے ہیں
اداسی میں
کہیں سے بھی خاموشی ڈھونڈھ لاتے ہیں
جدائی میں
کئی رنگوں سےتنہائی سجاتے ہیں
وفاؤں کے ڈسے زخمی لبوں سے چوم کر آنسو
بہت ہنستے ہنساتے ہیں
ہمارے دکھ ہماری روح ہیں
جس سے ہمیشہ ہم
کنارے ڈھونڈھ لیتے ہیں
ہمارے دکھ ہمارا پیارہیں
جس سے ہمیشہ ہم سفر میں
اپنے جیسے دل کے مارے ڈھونڈھ لیتے ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)