درد ہمراہ ہے
سائے کی طرح۔۔۔۔
ایسا سایہ کہ جو تاریکی میں کچھ اور بھی واضح ہو جائے
درد ہمراہ ہے
رستے کی طرح۔۔۔۔
ایسا رستہ کہ بھٹکنے پہ بھی قسمت کی طرح ساتھ رہے
درد ہمراہ ہے
زخموں کی طرح۔۔۔۔
جن کا ہر لمس پسِ گردِ سفر سوچ کی گردن پہ رہے
درد ہمراہ ہے
لمحوں کی طرح۔۔۔۔
وقت جب سانس سے لگ لگ کے گزرتا ہے
تو اک ہوک کے ساتھ
ایک آواز سی سینے سے نکل جاتی ہے
آنکھ کے پار جمی موم پگھل جاتی ہے
دردہمراہ ہے
سورج کی طرح۔۔۔۔
دن نکلتا ہے تو پھر رات بھی آجاتی ہے
صبح ہوتی ہے تو پھر شام بھی ڈھل جاتی ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – دکھ بولتے ہیں)