ہنسیں اور ایک بار خود کو ایک دھوکہ اور دیں

ہنسیں اور ایک بار خود کو ایک دھوکہ اور دیں
ہنسیں
اور ایک بار خود کو ایک دھوکہ اور دیں
کہیں کہ شکر ہے کہ خوف رولنے کی رُت گئی
وہ خوف جو بدن میں پھیل پھیل کر لہو اُچھالتا رہا
وہ خوف جو دلوں کو اتنے سال پالتا رہا
لکھیں، ہم اپنے سب مسافروں کو روز خط لکھیں
لکھیں کہ اب وطن میں کوئی بھی سحر سیاہ رات کی طرح نہیں رہی
فقط عجیب سے خموش جھپٹّے میں قید ہے
اور اب تمام بستیاں کچھ اس طرح کے راہزنوں کے ہاتھ ہیں کہ
جن کے جسم اور دل چھُپے ہوئے ہیں نرم رُو محافظوں کی کھال ہیں
وہ ہاو ہو، وہ دندناتی بجلیوں کا ناگوار شور دھیما پڑ گیا ہے
جھوٹ مُوٹ بارشوں کے بے سُرے الاپ سے
اگرچہ روح کی سڑاند اب بھی آرہی ہے ساری چمنیوں کی بھاپ سے
لکھیں، بڑی ہی احتیاط سے لکھیں
کہ لوگ مَر تو اب بھی روز ہی رہے ہیں سینکڑوں
مگر بہت سکون سے
کہ اُن کی گردنوں پہ اُن کے قاتلوں کی اُنگلیوں کا کوئی بھی نشاں نہیں
ہنسیں، اور ایک بار خود کو ایک دھوکہ اور دیں
سُنیں، اگر کہیں کوئی کراہ کوئی چیخ تو سماعتوں کو دوش دیں
سُنیں جو سچ کبھی خود اپنے آپ سے
تو اسِ کبیر جرم میں زباں میں اپنے سارے دانت گاڑ دیں
اور اپنے ہاتھ سے خود اپنے دامنوں کو پھاڑ دیں
گلہ کوئی دلوں میں رہ گیا ہو تو نکال دیں
دیا بُجھا کے آنکھ آئینے کی سرد آنکھ میں بڑے ہی اعتماد اور بہادری سے ڈال دیں
کہ پھر کہیں کوئی خلش کبھی صدا نہ دے سکے
ہنسیں
اور آج آپ اپنا سارا کچھ خوشی سے بے حساب خود فریبیوں کو سونپ دیں
قدیم مصر کے سبھی بچے کھچے، خداؤں کو
یقین کی مری ہوئی ہتھیلیاں بھی سونپ دیں
سبھی سُنہری تختیوں کو درمیاں سے توڑ کر
کہانیاں بھی بخش دیں
پہیلیاں بھی سونپ دیں
اُٹھا کے اپنی گڑیا، اپنی بانسری، قلم، دُعائیں
مُسکرا کے
راہزنوں کو
جان سے عزیز تر سہیلیاں بھی سونپ دیں
ہنسیں اور ایک بار خود کو ایک دھوکہ اور دیں
ہنسیں
اور آج تو کچھ اتنے زور سے ہنسیں کہ پھر
فضا میں دُور دُور تک سکوت گونجتا رہے
سکوت گونجتا رہے، سکوت گونجتا رہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – آنکھوں کے پار چاند)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *