اگرچہ میں سمجھتا تھا
کہ کوئی راستہ لوٹا نہیں کرتا
نہ دریا مڑ کے آتے ہیں
نہ شامیں واپسی کی سوچ پر ایمان رکھتی ہیں
اگرچہ میں سمجھتا تھا
کہ لمحے تو فقط آگے ہی بڑھتے ہیں
مگر افسردگی کی اس پرانی رو سے لگتا ہے
(جو میرے دل پے چھائی ہے)
محبت میں تو کچھ بھی طے نہیں ہوتا
محبت کب کسی بھی طے شدہ رستے پہ چلتی ہے
مری افسردگی چپکے سے میرے کان میں کہتی ہے
فرحت سوچتے کیا ہو
یہ دیکھو
یہ بھلا کیا ہے
ذرا آنکھیں تو کھولو نیند میں ڈوبے ہوئےغم کی
ہوائیں لوٹ آئی ہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – شام کے بعد – دوم)