ہماری خواہشیں تک دربدر بیمار پھر تی ہیں
ہماری بدنصیبی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی
ہمارا ملک اپنے قاتلوں کی دسترس میں ہے
یہ قاتل خاک میں ملبوس ہیں اور کہتے پھرتے ہیں
کہ ہم تو آسماں کی مہربانی ہیں زمینوں پر
وہ کہتی ہے کہ پاکستا ن کی حالت نہ بدلے گی
یہ لاوارث زمیں ہے اور اس کی کون سنتا ہے
یہ مٹی جس کا سینہ ایڑیوں کی زد میں آیا ہے
یہ جرنیلوں کی بھاری ایڑیاں اور بے نفس سینہ
یہ بزدل مورچوں سے بھاگ کر آتے ہیں اور دیکھو
خود اپنے شہریوں پر تان لیتے ہیں گنہگاری
یہ اپنے ملک کے آئین کے فاتح سیہ نیت
سمجھتے ہیں کہ عقلِ کُل نہیں ان کے سوا کوئی
وہ بولی یہ جو اپنے آپ کو آقا سمجھتے ہیں
ہمارا خون پی پی کر پلے، پچاس سالوں میں
وہ بولی دو نوالوں کے لیے خلقت ترستی ہے
مگر اس مقتدر طبقے کی نیت ہی نہیں بھرتی
یہ دوزخ کے شکم والے، درندے، بھیڑیے بھوکے
ہماری پاک دھرتی کا بدن چرتے نہیں تھکتے
ہمیں کشمیر کے دھوکے میں رکھ کر قتل کر ڈالا
نہ جانے کتنی ماؤں کے جواں سالوں کو لمحوں میں
وہ بولی کون سے کشمیر کی خاطر ہمارا دل
کبھی ہاتھوں، کبھی پاؤں کبھی الفاظ سے مسلا
اور اب زخموں کا سودا کر دیا چپ چاپ، وہ بولی
میں بولا اور اب یہ گھر کرائے کے لیے خالی
فرحت عباس شاہ