یاد پیا کی

یاد پیا کی
ایک عجیب سہانا خواب اور یاد پیا کی
موسم پیلا زرد، خراب اور یاد پیا کی
رات نے ایک عجیب اداسی کے سُر چھیڑے
درد سمندر اور تمہارے ہجر کے بیڑے
لیکر آئے مال عذاب اور یاد پیا کی
ایک عجیب سہانا خواب اور یاد پیا کی
ہم نے دل کے ہاتھوں جتنے زخم اٹھائے
اندر ہی محصور رہے نا باہر آئے
باہر آئے فقط گلاب اور یاد پیا کی
ایک عجیب سہانا خواب اور یاد پیا کی
ہم نے جس کی خاطر آنکھیں گروی رکھیں
روح جلائی اور پھر سوچیں گروی رکھیں
بخش گیا ہے ہمیں سراب اور یاد پیا کی
ایک عجیب سہانا خواب اور یاد پیا کی
فرحت عباس شاہ
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *