یہ جو بولتا ہی نہیں کبھی کوئی کون ہے
کبھی یہ نہ ہو گا کہ رنج و غم ہمیں چھوڑ دیں
ہمیں اپنے سیاہ نصیب پر بھی یقین ہے
کسی شام دل کو اداسیوں میں لپیٹ کر
میں تمہارے شہر سے لوٹ جاؤں گا خواب میں
انہیں حکم ہے کہ وہ گھوڑے ڈال دیں بحر میں
جنہیں اپنے اپنے گمان پر بھی یقین ہے
ترا اعتبار تو کب کا ہو چکا خار و خس
تجھے پانی پانی بھی دیکھنے کی ہے آرزو
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ابھی خواب ہے)