فضا میں دور کہیں کچھ جلا ہوا تو نہیں
قدم قدم پہ لرزتے ہو پیاس کے ڈر سے
لبِ سفر کوئی صحرا بسا ہوا تو نہیں
صبا کے پاؤں کو ٹھوکر لگی ہے رستے میں
کسی کی آہ کا پتھر پڑا ہوا تو نہیں
یہ کس قدر جو دریچوں سے خوف جھانکتا ہے
گلی گلی میں کوئی گھر لٹا ہوا تو نہیں
ہنسی ہنسی میں کہیں دور ڈوب جاتے ہو
پسِ مزاج کوئی دکھ چھپا ہوا تو نہیں
کسی نے سوچا نہیں جشن کو کہ بستی میں
کوئی چراغ کہیں پر بجھا ہوا تو نہیں
فرحت عباس شاہ
(کتاب – ہم جیسے آوارہ دل)