یہ دل میں کون گھبرایا ہوا ہے
دھڑکنوں کے زیرو بم سے
بے سروپا لرزشوں کا شور اٹھتا ہے
لرزتی سانس کا ماتھا پسینے کی نمی سے تر۔۔۔
وریدیں سہم جاتی ہی
یہ دل میں کون گھبرایا ہوا ہے
آنکھ کے رستے بہت سنولا گئے ہیں
اس کی گھبراہٹ کی شدت سے
مرے جیسی کئی روحیں
تو بس پیدائشی ویران ہوتی ہیں
انہیں دل پر کبھی قابو نہیں ہوتا
تمہارے ہجر نے
مجھ میں نجانے کس طرح کی ہوک بھر دی ہے
جسے جیون گوارا ہی نہیں کرتا ، جسے کوئی سہارا ہی نہیں دیتا
جسے بس موت میں آسودگی ملتی نظر آتی ہے آخر کو
میں اپنی انگلیوں کی کپکپاہٹ آنسوؤں سے
ڈھانپ دیتا ہوں
مگر میرا کفن باہر نکل آتا ہے پردے سے
جو مجھ سے پوچھتا ہے
مرنے والے ان بہاروں میں تمہارا کون کملایا ہوا ہے
پیار کی قبروں کے موسم میں کبھی ایسا نہیں ہوتا
وہ مجھ سے پوچھتا ہے
اور میں اس سے پوچھتا ہوں
کون ہے آخر
یہ دل میں کون گھبرایا ہوا ہے
فرحت عباس شاہ
(کتاب – اے عشق ہمیں آزاد کرو)