آه کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک
دامِ ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ
دیکھیں کیا گُ زرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک
عاشقی صبر طلب، اور تم نّا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونےتک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے، لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک
پرتوِ خُور سے، ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں، ایک عنایت کی نظر ہونے تک
یک نظر بیش نہیں فُرصتِ ہستی غافل!
گرمئِ بزم ہے اِک رقصِ شرر ہونے تک
تا قیامت شبِ فرقت میں گزر جائے گی عمر
سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہونے تک
غمِ ہستی کا، اسدؔ! کس سے ہو جُز مرگ، علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک