بے اعتدالیوں سے سبُک سب میں ہم ہوئے

بے اعتدالیوں سے سبُک سب میں ہم ہوئے
جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے
پنہاں تھا دام سخت قریب [1] آشیان کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
ہستی ہماری اپنی فنا پر دلیل ہے
یاں تک مٹے کہ آپ ہم اپنی قَسم ہوئے
سختی کشانِ عشق کی پوچھے ہے کیا خبر
وہ لوگ رفتہ رفتہ سراپا الم ہوئے
تیری وفا سے کیا ہو تلافی؟ کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
اللہ ری [2] تیری تندیِ خو جس کے بیم سے
اجزائے نالہ دل میں مرے رزقِ ہم ہوئے
اہلِ ہوس کی فتح ہے ترکِ نبردِ عشق
جو پاؤں اٹھ گئے وہی ان کے علم ہوئے
نالے عدم میں چند ہمارے سپرد تھے
جو واں نہ کھنچ [3] سکے سو وہ یاں آ کے دم ہوئے
چھوڑی اسدؔ نہ ہم نے گدائی میں دل لگی
سائل ہوئے تو عاشقِ اہلِ کرم ہوئے
1. نسخۂ حمیدیہ اور مالک رام میں ” دامِ سخت قریب” (اعجاز عبید) مزید: نسخۂ حمیدیہ اور مالک رام میں ” دامِ سخت قریب” چھپا ہے ۔ دوسرے سب نسخوں میں “سخت قریب” بہ معنیِ “نہایت قریب” درج ہے (حامد)
2. مالک رام اور نسخۂ صد سالہ یادگار غالب کمیٹی دہلی میں “رے” کی جگہ “ری” چھپا ہے “اللہ رے” اور “اللہ ری” میں یہ امتیاز قابل تعریف ہے مگر اس بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ مخاطب “تندیِ خو” نہیں بلکہ “تند خو محبوب” ہے جو محبوبہ بھی نہیں۔ (حامد علی خان)
3. بعض نسخوں میں “کھِنچ” چھپا ہے ۔ (حامد علی خان) حامد علی خان کے نسخے میں “کھِچ” درج ہے۔ (جویریہ مسعود)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *