رفتارِ عمر قطعِ رہ اضطراب ہے
اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے
مینائے مے ہے سروِ نشاطِ بہار سے [1]
بالِ تَدَر و [2] جلوۂ موجِ شراب ہے
زخمی ہوا ہے پاشنہ پائے ثبات کا
نے بھاگنے کی گوں، نہ اقامت کی تاب ہے
جادادِ بادہ نوشیِ رنداں ہے شش جہت
غافل گماں کرے ہے کہ گیتی خراب ہے
نظّارہ کیا حریف ہو اس برقِ حسن کا
جوشِ بہار جلوے کو جس کے نقاب ہے
میں نامراد دل کی تسلّی کو کیا کروں
مانا کہ تیری رخ سے نگہ کامیاب ہے
گزرا اسدؔ مسرّتِ پیغامِ یار سے
قاصد پہ مجھ کو رشکِ سوال و جواب ہے
1. اٹھارہ سے زاید قدیم و جدید نسخوں کے باہم دگر مقابلے سے معلوم ہوا کہ کہ بیشتر نسخوں میں یہ شعر اسی طرح چھپا ہے:
مینائے مے ہے سروِ نشاطِ بہار مے بالِ تَدَر و جلوۂ موجِ شراب ہے
لیکن نسخۂ حمیدیہ میں “سرو نشاط سے ” درج ہے جو صریحاً غلط ہے۔ ایک آدھ قدیم نسخے میں نیز عرشی، مہر مالک رام کے نسخوں میں یہ شعر ایک اور شکل میں ملتا ہے، یعنی مینا سے مے ہے سروِ نشاطِ بہار سے بالِ تَدَر و جلوۂ موجِ شراب ہے
یہ شعر اس طرح بھی با معنی ہے اور اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ نشاطِ بہار نے سرو کو بھی شراب سے لبالب بھرا ہوا مینا بنا دیا ہے۔ اس حالت میں آسمان پر بالِ تدرو یعنی ابرِ باران آور بھی جلوۂ موجِ شراب معلوم ہوتا ہے۔ جس سے شراب کے خوب کھل کر برسنے کی امید ہو سکتی ہے۔ (حامد)
2. تذرو اور تدرو دونوں طرح لکھا جاتا ہے۔ (جویریہ مسعود بحوالۂ نسخۂ مہر )