طاؤس در رکاب ہے ہر ذرّہ آہ کا

طاؤس در رکاب ہے ہر ذرّہ آہ کا
طاؤس در رکاب ہے ہر ذرّہ آہ کا
یا رب نفس غبار ہے کس جلوہ گاہ کا؟
عزّت گزینِ [1] بزم ہیں واماندگانِ دید
مینائے مے ہے آبلہ پائے نگاہ کا
ہر گام آبلے سے ہے دل در تہِ قدم
کیا بیم اہلِ درد کو سختیِ راہ کا
جَیبِ نیازِ عشق نشاں دارِ ناز ہے
آئینہ ہوں شکستنِ طرفِ کلاہ کا
سرمۂ مفتِ نظر ہوں مری قیمت [2] یہ ہے
کہ رہے چشمِ خریدار پہ احساں میرا
رخصتِ نالہ مجھے دے کہ مبادا ظالم
تیرے چہرے سے ہو ظاہر [3] غمِ پنہاں میرا
1. نسخۂ حمیدیہ میں “عزلت گزینِ” بجائے ” عزّت گزینِ” (جویریہ مسعود)
2. نسخۂ آگرہ، منشی شیو نارائن، 1863ء میں ’مری قسمت‘ (اعجاز عبید)
3. نسخۂ حسرت موہانی میں “ہو ظاہر” کی جگہ “عیاں ہو” چھپا ہے۔ (حامد علی خان)
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *