بہت دن سے!
مجھے کچھ اَن کہے الفاظ نے بے چین کررکھا ہے
مجھے سونے نہیں دیتے
مجھے ہنسنے نہیں دیتے
مجھے رونے نہیں دیتے
یوں لگتا ہے!
کہ جیسے سانس سینے میں کہیں ٹھہری ہوئی ہے
یوں لگتا ہے!
کہ جیسے تیز گرمی میں
ذرا سی دیر کو بارش برس کے رک گئی ہے
گھٹن چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے
بہت دن سے!
مری آنکھوں میں سپنوں کی
کوئی ڈولی نہیں اُتری
بہت دن سے!
خیالوں میں‘ دبے پاؤں
کوئی اپنا نہیں آیا
بہت دن سے!
وہ سب جذبے!
جو میری شاعری کے موسموں میں رنگ بھرتے تھے
کہیں سوئے ہوئے ہیں
مرے الفاظ بھی کھوئے ہوئے ہیں
میں اُن کو ڈھونڈنے!
اِس زندگی کے دشت میں نکلا تو ہوں لیکن!
مجھے معلوم ہے
جذبے!
اگر اک بار کھو جائیں
تو پھر واپس نہیں ملتے
مجھے معلوم ہے پھر بھی!
ابھی اک آس باقی ہے
میں اب اُس آس کی انگلی پکڑ کر
چل رہا ہوں
بظاہر شبنمی ٹھنڈک مجھے گھیرے ہوئے ہے
مگر میں جل رہا ہوں
میں اب تک چل رہا ہوں