حشر میں ہی دیکھیں گے یہ حساب رہنے دے
زندگی معلم ہے تجھ کو سب سکھا دے گی
اس کو سیکھ لے پڑھنا ہر کتاب رہنے دے
وصل کی تمنا میں زندگی گذارے جا!
سامنے نگاہوں کے یہ سراب رہنے دے
یہ نا ہو کہیں تجھ کو لاجواب کر دوں میں
کچھ سوال رہنے دے‘ کچھ جواب رہنے دے
عشق کی مسافت میں‘ پیار میں محبت میں
کیا کسی نے پایا ہے یہ حساب رہنے دے
غم کو غم سے بہلانا آ کے سیکھ لے مجھ سے
اپنے اشک پی لے تو اور شراب رہنے دے
ہم فقیر لوگوں کا بس یہی اثاثہ ہے
آنکھ کے کٹورے میں چند خواب رہنے دے