بچھڑنے والے

بچھڑنے والے
بچھڑنے والے!
تجھے خبر ہے؟
کہ تیرے جانے سے میرا جیون
ہزار خانوں میں بٹ گیا ہے
تجھے خبرہے بچھڑنے والے!
کہ میری خوشیاں ہی کھو گئی ہیں
میں کتنا تنہا سا ہوگیا ہوں
وجود میرا تو اس سفر میں
یہ دیکھ زخموں سے اَٹ گیا ہے
میں سوچتا ہوں!
مگر یہ سوچیں‘
کیوں ایک نقطے پہ جم گئی ہیں
کیوں لگ رہا ہے!
کہ جیسے سانسیں ہی تھم گئی ہیں
مجھے بتا دے بچھڑنے والے!
کہ کیسے خود کو سنبھالنا ہے
یہ ہجر تیرا بڑا کٹھن ہے
اور اس پہ چلتے ہوئے مری جاں!
یہ پاؤں میرے لہو لہو ہیں
یقین کرلے میں تھک گیا ہوں
بچھڑنے والے!
تجھے خبرہے
میں کب کا خود سے بچھڑ چکا ہوں
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *