تری آنکھوں سی آنکھیں
آج اک چہرے پہ دیکھی ہیں
وہی رنگت‘ بناوٹ
اور ویسی بے رُخی اُن میں
بچھڑتے وقت جو میں نے
تری آنکھوں میں دیکھی تھی
تری آنکھوں سی آنکھوں نے
مجھے اک پل کو دیکھا تھا
وہ پل اک عام سا پل تھا
مگر اس عام سے پل میں
پرانے کتنے موسم کتنے منظر میں نے دیکھے تھے
مری جاں! میں سمجھتا تھا
تری آنکھوں سی آنکھیں جب
مری آنکھوں کو دیکھیں گی
تو اک لمحے کو سوچیں گی
کہ اِن آنکھوں کو پہلے بھی
کسی چہرے پہ دیکھا ہے
مگر اُن جھیل آنکھوں میں
شناسائی نہیں جاگی
مری آنکھیں!
تری آنکھوں سی آنکھوں کے لیے
کب خاص آنکھیں تھیں
تری آنکھوں نے شاید یہ
کئی چہروں پہ دیکھی ہوں
کہ یہ تو عام آنکھیں تھیں
میں ایسا سوچ سکتا تھا
مگر میں کیا کروں دل کا
جو اب یہ یاد رکھے گا
تری آنکھوں سی آنکھیں
میں نے اک چہرے پہ دیکھی تھیں
پھر اس کے بعد کتنے دن
مری آنکھوں میں ساون تھا