خوشی کی بھی نہیں مجھ کو خوشی اب
خدا جانے اسے کیا ہو گیا ہے
بہت ہی بولتی ہے خامشی اب
کروں گا یاد جو فرصت ملی تو
بڑی مصروف ہے یہ زندگی اب
قناعت سیکھ لی ہے میرے دل نے
کمی لگتی نہیں مجھ کو کمی اب
کبھی جس کی طلب ہی زندگی تھی
ضرورت ہی نہیں اُس کی رہی اب
کبھی کہتے تو کتنی اہم ہوتی
وہی اک بات جو تم نے کہی اب
جسے تاریکیاں راس آ گئی ہیں
اسے کیوں ڈھونڈتی ہے روشنی اب
میں کب کا بو چکا تکیہ میں تارے
دلاسہ دے رہی ہے چاندنی اب