درد ملتے ہیں آشناؤں سے
خشک پتوں کو ناچتے دیکھا
گیت سنتا رہا ہواؤں سے
مال و زر کی طلب نہیں ہے مجھے
میری جھولی بھرو دعاؤں سے
اور کتنا چلو گے تم آخر!
آبلے پوچھتے ہیں پاؤں سے
جن کو عادت ہے بے وفائی کی
آؤ جیتیں اُنہیں وفاؤں سے
دیکھتے ہیں قریب سے اُن کو
جل گئے ہیں جو لوگ چھاؤں سے
ہو مسیحا یا پھر دُعا عاطفؔ
درد گھٹتے ہیں کب دواؤں سے