تمہارے واسطے خود کو سنبھال رکھا ہے
یوں لگ رہا ہے کہ بارش میں دھوپ نکلی ہے
خوشی میں اس طرح تم نے ملال رکھا ہے
کچھ اس لیے بھی مرا حرف حرف روشن ہے
تمہاری سوچ نے دل کو اجال رکھا ہے
جو مجھ کو چھوڑ کے تقسیم ہو گیا سب میں
اسی کے واسطے خود کو سنبھال رکھا ہے
خود اپنے آپ میں رہنا اُسے قبول نہیں
مجھے بھی ذات سے باہر نکال رکھا ہے
یہ سوچتا ہوں اُسے کیا کہوں گا میں عاطفؔ
کہ میرے پیار پہ اُس نے سوال رکھا ہے