اے مرے نوجواں!
تو مری بات سن، کچھ تو محسوس کر،
تیرے چاروں طرف جو ہے پھیلاہوا ،اس کو محسوس کر
سب مجھے نوچ کر کھا رہے ہیں یہاں
بات اب کی نہیں بات صدیوں کی ہے
ان کو معلوم ہے، جانتے ہیں وہ سب
کتنی لاشیں گریں کتنے بازو کٹے
کتنی ماؤں کے بیٹے جدا ہو گئے
کتنی بہنوں کے آنچل جلائے گئے
کتنے بچے یتیمی کو اوڑھے ہوئے میری جانب بڑھے!
میں کہ اک خواب تھا ایسے گھر کا جہاں ہر کو ئی رہ سکے
ایک پرچم تلے،
نہ کوئی خوف ہو اور نہ ڈر کوئی
غیر کے سامنے نہ جھکے سر کوئی
میں کہ اک خواب تھاجس کو قائد نے تعبیر تو کر دیا
میرے بچے مگر اس کی تعبیر کے حرف و معانی سمجھنے سے قاصر رہے
خون اپنوں کا خود ہی بہاتے رہے
اپنے لاشوں کو خود ہی اٹھاتے رہے
ؒلا الہ زباں سے توکہتے رہے
اس کے معنی سے آنکھیں چراتے رہے
متحد نہ ہوئے منتشر ہو گئے
اور ایمان کو بیچ کر سو گئے
نظم و تنظیم کی خوبیاں بھول کر
میرے بچوں کی قربانیاں بھول کر
اپنی دنیا میں گم اس طرح ہو گئے
جوش،جذبے، سبھی ولولے کھو گئے
بات اب کی نہیں بات صدیوں کی ہے
جانتا ہوں کہ سب لوگ ایسے نہیں
میری آ غوش میں ایسے بچے بھی ہیں
میری چاہت سے دل جن کے لبریز ہیں
جن کی آنکھوں میں خوابوں کی تعبیر ہے
جو سمجھتے ہیں قائد کے فرمان کو
جانتے ہیں جو اقبال نے کہہ دیا
ان کے دم سے ہی زندہ ہوں میں آج تک
یہ مرا نام ہیں میری پہچان ہیں
اے مرے نوجواں! تو مری بات سن
کل جو گذرا ہے تو بھی اسے دیکھ لے
کس میںتیری بقا ہے اسے جا ن لے
آنے والاجو کل ہے تیرے دم سے ہے
ایسا بچہ نہ بن جو مجھے نوچ کرپیٹ بھرتا رہے
ــکامـ کی عظمتوں کو سمجھ نوجواں
میری مٹی میں سوناہے تیرے لیے
اپنے قائدکے خوابوں کو تعبیر کر
اپنے اندرکے دشمن کو خود مار دے
میرے ہونے نہ ہونے کو محسوس کر
آنے والا جو کل ہے ترے دم سے ہے
اے مرے نوجواں! سن مری بات سن!
میری فریاد سن ، کچھ تو محسوس کر
میرے ہونے نہ ہونے کو محسوس کر