وہ میرا ہو کے بھی میرا نہیں ہے
سمندر بانٹتا پھرتا ہے پانی
مگر اب کوئی بھی پیاسا نہیں ہے
خزاں رُت میں ہری شاخوں کی باتیں
سنو! یہ تذکرہ اچھا نہیں ہے
تمہاری آنکھ میں ٹھہرا ہوا ہے
وہ جملہ جو ابھی بولا نہیں ہے
اُسے مل کر یہی جانا ہے میں نے
سمندر اس قدر گہرا نہیں ہے
میں خود کو کس طرح سمجھاؤں عاطفؔ
کوئی بھی لوٹ کر آتا نہیں ہے