مجھے خود سے مُکرنا پڑ گیا ہے

مجھے خود سے مُکرنا پڑ گیا ہے
ترے سانچے میں ڈھلنا پڑ گیا ہے
یہ آنکھیں اس لیے خوں رنگ ہوئی ہیں
مجھے آنسو نگلنا پڑ گیا ہے
اُسے بھی چاہیے میرا سہارا
اسی خاطر سنبھلنا پڑ گیا ہے
تمہارے ساتھ چلنے کی طلب میں
یہ کن رستوں پہ چلنا پڑ گیا ہے
تمہیں تبدیل کرنا چاہتا تھا
مگر خود کو بدلنا پڑ گیا ہے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *