محبتوں کا بھرم کھولتے ہیں سناٹے

محبتوں کا بھرم کھولتے ہیں سناٹے
اداس شب میں بہت بولتے ہیں سناٹے
کسی کسی کو یہ اتنا نواز دیتے ہیں
کسی کسی کو بہت رولتے ہیں سناٹے
رکھے ہیں چاند ستاروں نے ہاتھ کانوں پر
کہیں سنا تھا بہت بولتے ہیں سناٹے
تمہارے بس میں اگر ہو تو جان لو اِن کو
کسی پہ خود کو کہاں کھولتے ہیں سناٹے
سنا ہے میں نے یہ تنہائیوں کے دشمن ہیں
سنا ہے اُن میں زہر گھولتے ہیں سناٹے
یہ میری شاعری ان کی ہی اک ادا سمجھو
کہ مجھ میں سوچ کے در کھولتے ہیں سناٹے
Share:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *