کہ دکھ ایسا ہے جو لفظوں کی صورت لکھ نہیں سکتا
سلگتے آنسوؤں کو کس طرح سے نظم میں باندھوں
سسکتی بین کرتی زندگی کس رنگ میں لکھوں
مجھے معصوم آہوں کو زباں دینی نہیں آتی
میں ان بے بس نگاہوں کی کہانی لکھ نہیں سکتا
جہاں پر آشیانے تھے وہاں ہیں ڈھیر ملبے کے
کہ جن میں دفن ہیں یادیں کئی گذرے زمانوں کی
میںان بکھرے ہوئے خوابوں کا نوحہ کس طرح لکھوں
میں بے بس ہوں کہ غم لفظوں کی صورت لکھ نہیں سکتا
یہ ایسا زخم ہے شاید کبھی جو بھر نہیں سکتا
یہ منظر آنکھ سے بے شک بھلائے جا نہیں سکتے
نشاں ان کے دل وجاں سے مٹائے جا نہیں سکتے
حقیقت ہے جو کھویا ہے،
کسی صورت کبھی اُس کا مداوا ہو نہیں سکتا
جو دل کادرد کہہ دیں لفظ ایسے ہو نہیں سکتے
جو غم ہلکا کرے وہ آنکھ آنسو رو نہیں سکتی
کڑی یہ آزمائش ہے دعاؤں کی ضرورت ہے
چلو رب سے دعا مانگیں کہ وہ اس آزمائش میں
ہمیں ہمت عطا کر دے کہ ہم بھی سرخرو ٹہھریں
ہمیں راضی کرے اس میں کہ جو اس کی رضا ٹہھرے
دلوں کو صبر کی دولت سے مالامال وہ کر دے
اور اپنی رحمتوں سے برکتوں سے جھولیا ںبھر دے
کڑی یہ آزمائش ہے چلو رب سے دعا مانگیں
(۸ ‘اکتوبر ۲۰۰۵ء)